پوتے کی میراث میں دادا اور دادا کی میراث میں پوتے کا کوئی حصہ صراحتًا تو قرآن میں بیان نہیں ہوا ، لیکن اولاد اور آبا کے الفاظ چونکہ لغت و عرف، دونوں کے اعتبار سے اِن کو بھی شامل ہو جاتے ہیں، اِس لیے فقہا کا ہمیشہ اتفاق رہا ہے کہ بلاواسطہ اولاد اور بلاواسطہ والدین میں سے کوئی موجود نہ ہو تو جو حصہ اُن کے لیے مقرر ہے، وہی بالواسطہ اولاد اور بالواسطہ والدین کو دیا جائے گا۔ تاہم اولاد کے معاملے میں ایک صورت یہ بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ایک یا چند بچے آدمی کی زندگی میں مر جائیں اور ایک یا چند بچے اُس کے مرنے کے بعد زندہ ہوں۔ فقہا کا اجتہاد یہ ہے کہ اِس صورت میں جو بچے مر گئے ہوں، اُن کی اولاد کو دادا کی میراث نہیں پہنچے گی، اپنے چچاؤں کے ہوتے ہوئے وہ اُس سے محروم کر دیے جائیں گے، الّا یہ کہ دادا اُن کے حق میں وصیت کرے۔ دور حاضر میں بعض اہل علم نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ فقہا کا یہ اجتہاد درست معلوم نہیں ہوتا۔پوتا بمنزلۂ اولاد ہے، اِس لیے بیٹے کی وفات کے بعد اُس کو وہ حصہ ملنا چاہیے جو اُس کا باپ زندہ ہوتا تو اُسے ملتا۔ ہمارے نزدیک یہی راے صحیح ہے۔ چنانچہ ہم یہاں اُن اعتراضات کا جواب دیں گے جو اِس پر ہمارے ممدوح و مخدوم مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے اپنی کتاب ’’تفہیمات‘‘میں کیے ہیں۔ اعتراضات درج ذیل ہیں:
۱۔قرآن کی رو سے جس شخص کو بھی میراث کا کوئی حصہ ملتا ہے، خود میت کا اقرب ہونے کی حیثیت سے ملتا ہے، کسی دوسرے اقرب کے قائم مقام کی حیثیت سے نہیں ملتا۔ چنانچہ دادا کی میراث سے یتیم پوتے کو حصہ دینے کی یہ تجویز قائم مقامی کا ایک بالکل غلط نظریہ اسلام کے قانون میراث میں داخل کر دیتی ہے جس کا قرآن میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اِس پر مزید یہ کہ قائم مقامی کو بطور اصول تسلیم کر لینے کے بعد یہ اُس کو اولاد کی اولاد تک محدود رکھتی ہے۔ اِس کے حق میں بھی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔
۲۔ قرآن کی روسے میراث اُنھی لوگوں کا حصہ ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ موجود ہوں، مگر یہ تجویز اُن لوگوں کو بھی میراث میں حصہ دار بنا دیتی ہے جو اُس کی زندگی میں وفات پا چکے ہوں۔
۳۔قرآن نے بعض رشتہ داروں کے حصے قطعی طور پر بیان کر دیے ہیں، اُن میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی، مگر اِس تجویز پر عمل کے نتیجے میں خود قرآن کے مقرر کیے ہوئے بعض حصوں میں کمی اور بعض میں بیشی ہو جاتی ہے۔
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ پوتے کو یہ حصہ اِس لیے نہیں دیا جا رہا کہ وارث کی حیثیت سے وہ اپنے باپ کا قائم مقام ہے، بلکہ اِس لیے دیا جا رہا ہے کہ باپ کی وفات کے بعد وہ اُسی حیثیت سے دادا کا اقرب ہو گیا ہے، جس حیثیت سے اُس کا باپ اقرب تھا۔ چنانچہ اِس لحاظ سے باپ کا قائم مقام ہے۔ اُس کا باپ زندہ تھا تو اولاد کے رشتے میں اپنے باپ کے لیے وہی اقرب تھا۔ اب وہ دنیا میں نہیں رہا تو اُس کی جگہ پوتا اقرب ہے اور اِسی بنا پر میراث میں حصے کا حق دار ہے۔ باپ کی زندگی میں بھی وہ دادا کے لیے بمنزلۂ اولاد تھا اور اُس کے مرنے کے بعد بھی بمنزلۂ اولاد ہے۔ مرنے کے بعد جو فرق پڑا ہے، وہ یہی ہے کہ دادا کا اقرب ہونے میں بھی باپ کا قائم مقام ہو گیا ہے۔ یہ اُس معنی میں قائم مقامی نہیں ہے، جس معنی میں مولانا اِسے سمجھ رہے ہیں۔ یہ میت کا اقرب ہونے میں قائم مقامی ہے جو خود مولانا کے بیان کے مطابق اسلامی قانون میراث کی بنیاد ہے۔ میت کی اولاد میں نیچے تک کوئی نہ ہو تو بہن بھائی اِسی حیثیت سے اولاد کے قائم مقام ہو جاتے ہیں اور قرآن کی رو سے اُسی طریقے کے مطابق اور ٹھیک وہی حصہ پاتے ہیں جو اولاد کی موجودگی میں اُس کے لیے مقرر ہے۔ اِس قائم مقامی کے لیے سورۂ نساء(۴) کی آخری آیت نص قطعی ہے۔ اِسے اولاد کی اولاد تک محدود رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بیوی یا شوہر کے مر جانے کے بعد اُن کا کوئی وارث کسی بھی درجے میں بیوی یا شوہر نہیں ہو جاتا کہ اُسے میت کا اقرب ہونے میں اُن کا قائم مقام قرار دیا جائے۔
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ پوتے کو جو حصہ دیا جا رہا ہے ، وہ باپ کا حصہ نہیں ہے جو وارث کی حیثیت سے اُس کے بیٹے کو دیا جا رہا ہے، بلکہ خود اُسی کا حصہ ہے جو اِس لیے دیا جا رہا ہے کہ باپ کی وفات کے بعد وہ اُس کی جگہ پر اور اُسی حیثیت سے دادا کا اقرب ہو گیا ہے۔ اِس سے قرآن کے اِس اصول پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ میراث اُنھی لوگوں کا حصہ ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ ہوں۔ یتیم پوتے کو میراث میں حصہ دینے کی یہ تجویز بھی اُسی کو حصہ دار بنا رہی ہے جو مورث کی وفات کے وقت زندہ ہے۔
تیسرا اعتراض اِس غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے کہ پوتوں میں تقسیم وراثت کا یہی طریقہ اُ س وقت بھی اختیار کیا جائے گا، جب اولاد میں سے کوئی موجود نہ ہو۔ مولانا نے ایک مثال سے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... فرض کیجیے کہ ایک شخص کے دو ہی لڑکے تھے اور دونوں اُس کی زندگی میں وفات پا گئے۔ ایک لڑکا اپنے پیچھے چار بچے چھوڑ کر مرا۔ دوسرا لڑکا صرف ایک بچہ چھوڑ کر مرا۔قرآن کی رو سے یہ پانچوں پوتے حق ولایت میں بالکل برابر ہیں، اِس لیے دادا کے ترکے میں سے اُن سب کو برابر حصہ ملنا چاہیے، مگر قائم مقامی کے اصول پر اُس کی جائداد میں سے آٹھ آنے ایک پوتے کو ملیں گے اور باقی چار پوتوں کے حصے میں صرف دو دو آنے آئیں گے۔‘‘ (تفہیمات، ابوالاعلیٰ مودودی ۳/۱۸۲)
اِس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ اِس صورت میں وہی طریقہ قائم رکھا جا سکتا ہے کہ جو اِس وقت اختیار کیا جاتا ہے، یعنی سب پوتوں کو برابر حصہ دیا جائے۔ اِس کی رہنمائی خود قرآن کے اندر موجود ہے۔ اُس نے ایک وارث کو دوسرے وارثوں کی موجودگی میں ایک طریقے سے اور عدم موجودگی میں دوسرے طریقے سے حصہ دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔ چنانچہ اولاد موجود ہو تو والدین میں سے ہر ایک کا حصہ ۶؍۱ ہے۔اولاد موجود نہ ہواور بھائی بہن ہوں تو اُن کا حصہ یہی رہے گا۔ لیکن میت کے وارث صرف والدین ہوں تو ماں کا حصہ ایک تہائی اور باپ کا دو تہائی ہے۔ یہی صورت کلالہ رشتہ داروں کی ہے۔ اُن میں سے کسی کو وارث بنا دیا جائے اور اُس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اُن میں سے ہر ایک کا حصہ۶؍۱ ہے، لیکن بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے اور اُنھیں برابر حصہ ملے گا۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ پوتوں کے لیے دونوں صورتوں میں ایک ہی طریقے پر اصرار کیا جائے۔ یہ سراسر ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ اِس میں جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے، اُسے قرآن کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کے مطابق اور ہر حال میں قرین انصاف ہونا چاہیے۔