سود ایک اخلاقی نجاست ہے جس میں ملوث افراد اور ادارے اپنے اصل سرمایے کو بالکل بے داغ محفوظ رکھ کر اور کوئی جوکھم برداشت کیے بغیر منافع بٹانے کے لیے اپنے مقروض کے سر پر سوار رہتے ہیں ۔ عربی زبان میں اس کے لیے ’ربٰوا‘ کا لفظ مستعمل ہے ۔قرآن نے اس کے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے ۔ عربی زبان سے واقف ہرشخص جانتا ہے کہ اس سے مراد وہ معین اضافہ ہے جو قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اس بنا پر وصول کرتا ہے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے ۔قرآنِ مجید نے اسے پوری شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے:
اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ، وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا۔ فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ، وَاَمْرُہٗ اِلَی اللّٰہِ ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّاِر ھُمْ فِیْھَا خَلِدُوْنََ۔ (۲: ۲۷۵)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ،وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو ۔ یہ اس وجہ سے ہو گا کہ انھوں نے کہا : بیع بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے ۔ چنانچہ جس کو اس کے پروردگار کی یہ تنبیہ پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا ،سو لے چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ،اور جو اب اس کا اعادہ کریں گے تو وہی اہلِ دوزخ ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اسی سورہ میں آگے فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا ، اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ، وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِکُمْ ، لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَاتُظْلَمُوْنَ ۔(۲: ۲۷۸۔۲۷۹)
’’ایمان والو ، اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے ، اسے چھوڑ دو ۔ پھر اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہو جاؤ ۔اور اگر تم توبہ کر لو تو اصل رقم کا تمھیں حق ہے ،نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
ان آیات میں سود خواروں کے قیامت میں پاگلوں کی طرح اٹھنے کی وجہ قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ نے بیع و شرا کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرا دیا ہے ، دراں حالیکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک تاجر اپنے سرمایے پر نفع لے سکتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایے پر نفع کا مطالبہ کرے تو وہ آخر مجرم کس طرح قرار پاتا ہے ؟ قرآن کے نزدیک یہ ایسی پاگل پن کی بات ہے کہ اس کے کہنے والوں کو جزا اور عمل میں مشابہت کے قانون کے تحت قیامت میں پاگلوں اور دیوانوں ہی کی طرح اٹھنا چاہیے ۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی سود خواروں کے اس اظہارِ تعجب پر تبصرہ کرتے ہوئے ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’اس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے ،بلکہ بڑی پرانی ہے ۔قرآن نے اس قیاس کو ... لائقِ توجہ نہیں قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہتہً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے ۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے ۔وہ محنت ،زحمت اور خطرات مول لے کر اس مال کو ان لوگوں کے لیے قابلِ حصول بناتا ہے جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اگر حاصل کر سکتے تھے تو اس سے کہیں زیادہ قیمت پر جس قیمت پر تاجر نے ان کے لیے مہیا کر دیا ۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلہ کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کر لے ۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اس وقت تک نہیں کما سکتا ،جب تک اس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے ۔
بھلابتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اس جاں باز ،غیور اور خدمت گزار سرمایہ سے ایک سود خوار کے اس سنگ دل، بزدل ،بے غیرت اور دشمن انسانیت سرمایہ کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ،لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہو جاتا ہے ۔‘‘ ( تدبر قرآن ۱/ ۶۳۲۔۶۳۳)
سود کی یہی شناعت ہے جس کی بنا پر ،بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الربٰوا سبعون حوباً ایسرھا ان ینکح الرجل امہ ۔ (ابن ماجہ ، رقم ۲۳۰۴)
’’سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے اگر ستر حصے کیے جائیں تو سب سے ہلکا حصہ اس کے برابر ہو گا کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔‘‘
قرآنِ مجید نے اگرچہ سود لینے ہی کو حرام ٹھیرایا ہے ،لیکن اس حرمت کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ بغیر کسی عذر کے اس کے کھانے اور کھلانے والے ،لکھنے والے اور اس کے گواہوں کو بھی تعاون علی الاثم کے اصول پر یکساں مجرم قرار دیا جائے ۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ٰ اکل الربٰوا ومؤکلہ و کاتبہ وشاھدیہ و قال : ھم سواء ۔ (مسلم ،رقم ۱۵۹۸ )
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے اور اس دستاویز کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں ۔‘‘
اسی طرح مبادلۂ اشیا کی صورت میں ادھار کے معاملات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ہر آلایش سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے :
الذھب بالذھب وزناً بوزن ، مثلاً بمثل والفضۃ بالفضۃوزناً بوزن ، مثلاً بمثل ، فمن زاد و استزاد فھو رباً۔ (مسلم، رقم ۱۵۸۸)
’’تم سونا ادھار بیچو تو اس کے بدلے میں وہی سونا لو ، اسی وزن اور اسی قسم میں اورچاندی ادھار بیچو تو اس کے بدلے میں وہی چاندی لو ، اسی وزن اور اسی قسم میں ، اس لیے کہ جس نے زیادہ دیا اور زیادہ چاہا تو یہی سود ہے۔‘‘
الورق بالذھب رباً الاھاء وھاء والبر بالبر رباً الاھاء وھاء والشعیر بالشعیر رباً الاھاء وھاء والتمر بالتمر رباً الاھاء وھاء ۔(مسلم، رقم ۱۵۸۶)
’’سونے کے بدلے میں چاندی ادھار بیچوگے تو اس میں سود آ جائے گا۱۔ گندم کے بدلے میں دوسری قسم کی گندم،۲ جو کے بدلے میں دوسری قسم کے جو اور کھجور کے بدلے میں دوسری قسم کی کھجور میں بھی یہی صورت ہو گی۔ ہاں ،البتہ یہ معاملہ نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں ۔‘‘
ان روایتوں کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ہم نے اوپر اپنے ترجمہ میں واضح کر دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا وہ یہی تھا ۔ روایتیں اگر اسی صورت میں رہتیں تو لوگ ان کا یہ مدعا سمجھنے میں غلطی نہ کرتے ، لیکن بعض دوسرے طریقوں میں راویوں کے سوءِ فہم نے ان میں سے دوسری روایت سے ’ ھاء وھاء ‘ کا مفہوم پہلی روایت میں ،اور پہلی روایت سے ’الذھب بالذھب ‘ کے الفاظ دوسری روایت میں ’الورق بالذھب‘ کی جگہ داخل کر کے انھیں اس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ ان کا حکم اب لوگوں کے لیے ایک لاینحل معما ہے ۔ ہماری فقہ میں’ربا الفضل‘ کا مسئلہ اسی غتربود کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے ،ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں واضح کر دی ہے کہ ’ انما الربٰوا فی النسیءۃ‘۳ (سود صرف ادھار ہی کے معاملات میں ہوتاہے ) ۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سود کا تعلق صرف انھی چیزوں سے ہے جن کا استعمال ان کی اپنی حیثیت میں انھیں فنا کر دیتا اور اس طرح مقروض کو انھیں دوبارہ پیدا کر کے ان کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس پر اگر کسی اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ عقل و نقل، دونوں کی رو سے ظلم ہے ،لیکن اس کے برخلاف وہ چیزیں جن کے وجود کو قائم رکھ کر ان سے استفادہ کیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد وہ جس حالت میں بھی ہوں ، اپنی اصل حیثیت ہی میں ان کے مالک کو لوٹا دی جاتی ہیں ،ان کے استعمال کا معاوضہ کرایہ ہے اور اس پر ، ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ قرض کسی غریب اور نادار کو دیا گیا ہے یا کسی کاروباری یا رفاہی اسکیم کے لیے ، اس چیز کو ربا کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ یہ بات بالکل مسلم ہے کہ عربی زبان میں ربا کا اطلاق قرض دینے والے کے مقصد اور مقروض کی نوعیت و حیثیت سے قطعِ نظر محض اس معین اضافے ہی پر ہوتا ہے جو کسی قرض کی رقم پر لیا جائے ۔ چنانچہ یہ بات خود قرآنِ مجید نے واضح کر دی ہے کہ اس کے زمانۂ نزول میں سودی قرض زیادہ تر کاروباری لوگوں کے مال میں جا کر بڑھنے ہی کے لیے دیے جاتے تھے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ، وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زٰکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۔(الروم ۳۰ : ۳۹)
’’اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ دوسروں کے مال میں پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دی تو اسی کے دینے والے ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھاتے ہیں ۔‘‘
اس میں دیکھ لیجیے ’ لیربوا فی اموال الناس‘ (اس لیے کہ وہ دوسروں کے اموال میں پروان چڑھے) کے الفاظ نہ صرف یہ کہ غریبوں کو دیے جانے والے صرفی قرضوں کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہیں ، بلکہ صاف بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی مقاصد ہی کے لیے دیا جاتا تھا اور اس طرح قرآنِ مجید کی تعبیر کے مطابق گویا دوسروں کے مال میں پروان چڑھتا تھا ۔یہی بات سورۂ بقرہ کی اس آیت سے بھی واضح ہوتی ہے :
وَاِنْ کَانَ ذُوْعُسَرۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلیٰ مَیْسَرَۃٍ، وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌلَّکُمْ، اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ (۲ :۲۸۰)
’’اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو ،اور اگر تم بخش دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ، اگر تم سمجھتے ہو ۔‘‘
استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’اس زمانے میں بعض کم سواد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عرب میں زمانۂ نزولِ قرآن سے پہلے جو سود رائج تھا ،یہ صرف مہاجنی سود تھا ۔غریب اور نادار لوگ اپنی ناگزیر ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اور یہ مہاجن ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے ۔اسی سود کو قرآن نے ربا قرار دیا ہے اور اسی کو یہاں حرام ٹھیرایا ہے ۔رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے جن کا اس زمانے میں رواج ہے تو ان کا نہ اس زمانے میں دستور تھا ، نہ ان کی حرمت و کراہت سے قرآن نے کوئی بحث کی ہے ۔
ان لوگوں کا نہایت واضح جواب خود اس آیت کے اندر ہی موجود ہے ۔جب قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ اگر قرض دار تنگ دست (ذوعسرۃ) ہو تو اس کو کشادگی (میسرۃ) حاصل ہونے تک مہلت دو تو اس آیت نے گویا پکار کر یہ خبر دے دی کہ اس زمانے میں قرض لینے والے امیر اور مال دار لوگ بھی ہوتے تھے ۔ بلکہ یہاں اگر اسلوبِ بیان کا صحیح صحیح حق ادا کیجیے تو یہ بات نکلتی ہے کہ قرض کے لین دین کی معاملت زیادہ تر مال داروں ہی میں ہوتی تھی ، البتہ امکان اس کا بھی تھا کہ کوئی قرض دار تنگ حالی میں مبتلا ہو کہ اس کے لیے مہاجن کی اصل رقم کی واپسی بھی ناممکن ہو رہی ہو تو اس کے متعلق یہ ہدایت ہوئی کہ مہاجن اس کو اس کی مالی حالت سنبھلنے تک مہلت دے اور اگر اصل بھی معاف کر دے تو یہ بہتر ہے۔ اس معنی کا اشارہ آیت کے الفاظ سے نکلتا ہے ،اس لیے کہ فرمایا ہے کہ : ’ان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ‘ (اگر قرض دار تنگ حال ہو تو اس کوکشادگی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے )۔ عربی زبان میں ’ان‘ کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا،بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے ۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں ’اذا‘ہے ۔اس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر قرض دار ’ذومیسرۃ‘ (خوش حال) ہوتے تھے ،لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ قرض دار غریب ہو یا قرض لینے کے بعد غریب ہو گیا ہو تو اس کے ساتھ اس رعایت کی ہدایت فرمائی ۔‘‘( تدبر قرآن ۱/ ۶۳۸۔۶۳۹)
اس کے بعد انھوں نے اپنی اس بحث کا نتیجہ اس طرح بیان کیا ہے :
’’ ظاہر ہے کہ مال دار لوگ اپنی ناگزیر ضروریاتِ زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے،بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے ۔ پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ان قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں ، کیا فرق ہوا؟ ‘‘(تدبرِ قرآن ۱ /۶۳۹)
۱ یہ سد ذریعہ کی نوعیت کا حکم ہے ۔آپ نے اس اندیشے سے کہ معاملہ چونکہ ادھار کا ہے اور صنف کے اختلاف کی وجہ سے اس میں کمی بیشی تو بہر حال ہو گی ،لوگوں کو اس سے منع فرمایا ہے۔
۲ اس جملے کاعطف چونکہ ’ الورق بالذھب‘ پر ہوا ہے جس میں صنف کا اختلاف بالکل واضح ہے ،اس وجہ سے عربیت کی روسے ’البربالبر‘ میں پہلے ’البر‘ کے معنی ،ظاہر ہے کہ دوسری قسم کی گندم ہی کے ہوسکتے ہیں ۔
۳ مسلم، رقم۱۵۹۶۔
-------------------------------
بشکریہ ماہنامہ اشراق