قتل عمد کی سزا - جاوید احمد غامدی

قتل عمد کی سزا

 

مذہب و اخلاق کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ حرمت حاصل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ کوئی شخص کسی کو قتل نہ کرے، یہ شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کو یہی حکم اِس تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ایک انسان کا قتل درحقیقت پوری انسانیت کا قتل ہے۔ تالمود میں یہ فرمان کم و بیش اِنھی الفاظ میں آج بھی موجود ہے۔ سورۂ مائدہ میں قرآن نے اِسی کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا.(۵: ۳۲)
’’(انسان کی) یہی (سرکشی) ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسیٰ کو شریعت دی تو اُس میں) بنی اسرائیل پر بھی فرض کر دیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُ س نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔‘‘

اِس فرمان سے واضح ہے کہ کسی انسان کی جان دو ہی صورتوں میں لی جا سکتی ہے: ایک یہ کہ وہ کسی کو قتل کر دے، دوسری یہ کہ نظم اجتماعی سے بغاوت کر کے وہ دوسروں کے جان و مال اور آبرو کے درپے ہو جائے۔ زمین میں فساد برپا کرنے کی تعبیر آیت میں اِسی مفہوم کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ اِس کے سوا ہر قتل ایک ناحق قتل ہے جس کا ارتکاب اگر کوئی شخص کرتا ہے تو اسلام اور اسلامی شریعت کی رو سے وہ اللہ تعالیٰ کا بھی مجرم ہے، مقتول کے وارثوں کا بھی اور حکومت اور معاشرے کا بھی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق بتایا ہے کہ اِس جرم کے مرتکبین اُس کے حضور میں کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، اُ ن کا ایمان و عمل، سب اکارت ہو گا اور اُنھیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ سورۂ نساء میں ہے:

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.(۴: ۹۳)
’’اُ س شخص کی سزا جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

دوسرا فریق مقتول کے وارث ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں قاتل کی جان پر پورا اختیار دے دیا ہے، لہٰذا دنیا کی کوئی عدالت یا حکومت اُن کی مرضی کے بغیر اُس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کر سکتی۔ عدالت اور حکومت، دونوں کی ذمہ داری ہے کہ مقتول کے ورثا اگر قصاص پر اصرار کریں تو اُن کی مدد کریں اور جو کچھ وہ چاہیں، اُسے پوری قوت کے ساتھ اور ٹھیک ٹھیک نافذ کر دیں۔ بنی اسرائیل میں فرمایا ہے:

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا.(۱۷: ۳۳)
’’خدا نے جس جان کو حرمت دی ہے، اُسے ناحق قتل نہ کرو اور (یاد رکھو کہ) جو مظلومانہ قتل کیا جائے، اُس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ سو وہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ اُس کی مدد کی گئی ہے۔‘‘

اِس کے بعد مسلمانوں کا معاشرہ ہے جس کی نمائندگی اُن کی حکومت کرتی ہے۔ اُس کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ مقتول کا قصاص اُس پر فرض ہے۔ چنانچہ وہ پابند ہے کہ اُس کے دائرۂ اختیار میں اگر کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اُس کے قاتل کا سراغ لگائے، اُسے گرفتار کرے اور قانون کے مطابق اُس سے قصاص لے۔ اِس کے لیے اُسے ہدایت کی گئی ہے کہ قصاص میں پوری مساوات ملحوظ رہنی چاہیے اور کسی شخص کا سماجی اور معاشرتی مرتبہ اِس معاملے میں ہرگز کسی ترجیح کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ادنیٰ و اعلیٰ، امیر و غریب، شریف و وضیع اور آقا و غلام، سب اِس معاملے میں بالکل برابر ہیں، اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ارشاد فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّبِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ... وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓاُوْلِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۷۸ ۔ ۱۷۹)
’’ایمان والو، (تم میں) جو لوگ قتل کر دیے جائیں، اُن کا قصاص تم پر فرض کیا گیا ہے، اِس طرح کہ قاتل آزاد ہو تو اُس کے بدلے میں وہی آزاد، غلام ہو تو اُس کے بدلے میں وہی غلام، عورت ہو تو اُس کے بدلے میں وہی عورت ... اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے، عقل والو، تاکہ تم حدود الٰہی کی پابندی کرتے رہو۔‘‘

یہ فرضیت صرف اُس صورت میں ختم ہوتی ہے، جب مقتول کے ورثا جان کے بدلے میں جان کا مطالبہ نہ کریں اور مجرم کے ساتھ نرمی برتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اِس کے بعد عدالت اور حکومت کا اختیار ہے کہ چاہے تو قصاص پر اصرار کرے اور مقتول کے وارثوں کی طرف سے کی گئی رعایت کو قبول کرنے سے انکار کر دے اور چاہے تو جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کے پیش نظر یہ رعایت قبول کر لے اور قاتل کو حکم دے کہ وہ مقتول کے وارثوں کو دستور کے مطابق دیت ادا کرے۔ سورۂ بقرہ (۲) کی جو آیت ۱۷۸ اوپر نقل ہوئی ہے، اُسی میں آگے فرمایا ہے:

فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ.
’’پھر جس کے لیے اُس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی جائے تو دستور کے مطابق اُس کی پیروی کی جائے گی اور جو کچھ بھی خون بہا ہو، وہ خوبی کے ساتھ ادا کر دیا جائے گا۔ یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک قسم کی رعایت اور تم پر اُس کی عنایت ہے۔‘‘

یہ، اگر غور کیجیے تو بالکل اُسی اسلوب میں رخصت کا بیان ہے، جس طرح روزے کی آیتوں میں ہے کہ ایمان والوں پر روزے فرض کیے گئے ہیں، لیکن کوئی مریض یا مسافر ہو تو وہ روزے چھوڑ سکتا ہے۔ اِس صورت میں یہ چھوڑے ہوئے روزے اُسے بعد میں پورے کرنا ہوں گے۔ چنانچہ دیکھیے، وہاں ارشاد ہے کہ ’’ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں‘‘، یہاں فرمایا ہے کہ ’’ایمان والو، تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے‘‘۔ وہاں ارشاد ہے کہ ’’پھر جو مریض یا مسافر ہو‘‘، یہاں فرمایا ہے کہ ’’پھر جس کے لیے اُس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی جائے‘‘۔ وہاں ارشاد ہے کہ ’’وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے‘‘، یہاں فرمایا ہے کہ ’’دستور کے مطابق اُس رعایت کی پیروی کی جائے‘‘۔ قرآن کے طلبہ دونوں آیتوں کو بالمقابل رکھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں میں جملوں کی تالیف بالکل ایک ہی ہے اور دونوں میں رعایت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے، اُسے لازم نہیں کیا گیا۔ لہٰذا جس طرح وہاں مسلمان پابند نہیں ہو گئے کہ سفر یا مرض کی حالت میں روزہ لازماً چھوڑ دیں، اُسی طرح یہاں بھی حکومت اور معاشرہ جن پر قصاص فرض کیا گیا ہے، ہرگز اِس کے پابند نہیں ہوئے کہ مقتول کے وارثوں نے اگر رعایت کا فیصلہ کیا ہے تو اُسے لازماً قبول کر لیں۔ اُن کی طرف سے رعایت کے بعد قصاص کی فرضیت ختم ہوئی ہے، اُس کا جواز ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ حکومت اور معاشرے کو پورا حق ہے کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کے پیش نظر وہ قصاص ہی پر اصرار کریں اور اِس رعایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔
قرآن کا یہی مدعا ہے جس کے پیش نظر اِن آیتوں کا ترجمہ ’’البیان‘‘ میں اِس طرح کیا گیا ہے:

’’ایمان والو، (تم میں) جو لوگ قتل کر دیے جائیں ، اُن کا قصاص تم پر فرض کیا گیا ہے۔ اِس طرح کہ قاتل آزاد ہو تو اُس کے بدلے میں وہی آزاد، غلام ہو تو اُس کے بدلے میں وہی غلام ، عورت ہو تو اُس کے بدلے میں وہی عورت ۔ پھر جس کے لیے اُس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی جائے (تو اُس کوتم قبول کر سکتے ہو ، لیکن یہ قبول کر لی جائے )تو دستور کے مطابق اُس کی پیروی کی جائے گی اور جو کچھ بھی خون بہا ہو، وہ خوبی کے ساتھ اُسے ادا کر دیا جائے گا۔ یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک قسم کی رعایت اور تم پر اُس کی عنایت ہے۔ پھر اِس کے بعد جو زیادتی کرے تو اُس کے لیے (قیامت میں) دردناک سزا ہے اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے، عقل والو، تاکہ تم حدود الٰہی کی پابندی کرتے رہو ۔ ‘‘(البقرہ۲: ۱۷۸۔۱۷۹)

اِس سے واضح ہے کہ قرآن کو اِس بات پر تو یقیناًاصرار ہے کہ وارثوں کی مرضی کے بغیر قاتل کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی، لیکن اِس بات پر ہرگز اصرار نہیں ہے کہ وہ نرمی برتنے پر تیار ہو جائیں تو اُسے چھوڑنا ضروری ہے۔ یہ فرق نہایت حکیمانہ ہے۔ دوسری بات پر اصرار کیا جائے تو معاشرے کا حق تلف ہوتا ہے اور وہی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس کا ہم ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی کے معاملے میں ماتم کر رہے ہیں اور پہلی بات پر اصرار نہ کیا جائے تو وارثوں کا حق تلف ہوتا ہے اور وہ حکمت باطل ہو جاتی ہے جو اِس پورے قانون میں ملحوظ ہے کہ مقتول کے وارثوں کی آتش انتقام بجھا دی جائے اور اُن کے زخم کا اِس طرح اندمال کیا جائے کہ اگر وہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اُس کے خاندان پر یہ اُن کا براہ راست احسان ہو جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہو سکتی ہے۔
ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے اِس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا اور اِس طرح قتل جیسے سنگین جرم کو معاشرے سے بے تعلق کر کے محض قاتل اور مقتول کے اولیا کے مابین ایک قضیہ بنا دیا ہے۔ قصاص اور دیت کا قانون فقہا کی اِسی راے پر مبنی ہے۔ اِس قانون میں جلد سے جلد ترمیم کر کے اِسے ہر لحاظ سے کتاب الٰہی کے مطابق کر دینا چاہیے۔ ہم اپنے ایمان و عقیدہ کی رو سے قرآن و سنت کے پابند ہیں، اُن کی کسی خاص تعبیر کو ماننے کے ہرگز پابند نہیں ہیں۔ علما سے ہماری درخواست ہے کہ وہ بھی اِن معروضات پر غور فرمائیں۔ یہ خدا کے دین کا معاملہ ہے، اِسے ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہیے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت نومبر 2013
مصنف : جاوید احمد غامدی